شجرہ ٔ نسب
شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی دامت برکاتہم العالیہ ‘بن حکیم محمدرمضان چغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن درویش حاجی اللہ بخش چغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن درویش مفتی حاجی فتح محمدچغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن درویش ولی محمدچغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن درویش عبدالحق چغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن درویش فیض محمد چغتائی رحمۃ اللہ علیہ بن صوفی غلام محمدچغتائی رحمۃ اللہ علیہ۔
آباؤ اجداد کا مختصر تعارف
شیخ الوظائف 1نومبر 1967۔ بروز پیر صبح سحری کے وقت بمطابق 13 رمضان المبارک 1386 ہجری۔ ہندی مہینے کے مطابق 8پوہ 2023 بکرمی کو احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور کےہزاروں سال پرانے تاریخی شہر کے محلہ نور شاہ بخاری میں پیدا ہوئے۔ متحدہ ہندوستان کی امیر ترین ریاست بہاولپور کا دارالحکومت احمد پور شرقیہ تھا۔ ۔والد محترم کا نام جناب حکیم محمد رمضان چغتائی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔جوایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے جنہوں نے اس دور میں ایم ایس سی سائیکالوجی کی‘ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے قدیم تاریخی کالج’’ ایس سی کالج‘‘ میں بھی زیر تعلیم رہے اور ساتھ خاندانی روحانیت کی تعلیم اور منازل طے فرمائیں اور مخلوق خدا کو ساری عمر نفع پہنچاتے رہے روحانی اور جسمانی فیض والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سےاور بڑوں کے ذریعے سے شیخ الوظائف کو بہت ملا۔ والد محترم رحمۃ اللہ علیہ معالج بھی تھے اور ایک کتابوں کی بہت بڑی لائبریری شیخ الوظائف کے لیے چھوڑی‘ مفکر اور ادیب بھی تھے۔۔ والد محترم رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1936ء اور وفات 11اپریل 1997 بروز جمعہ ہوئی ۔ والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا کا وصال 25 اکتوبر1999ء بروز پیر کو ہوا۔
آبائی وطن احمد پور شرقیہ ہے‘ جہاں آپ کا خاندان معزز حیثیت کے ساتھ صدیوں سے آباد ہے، گہرے مذہبی وروحانی تعلق کے ساتھ ساتھ آپ کےآباؤ اجدادتجارت‘ زمینداری اور روحانیت سے وابستہ تھے۔ آپ کے اجداد میں درویش پیر عبدالحق چغتائی رحمۃ اللہ علیہ تقریباًپونے دو صدیاں پہلے غزنی افغانستان (اس سے پہلے کے پہلے بخارا سےتشریف لائے تھے)سے ہجرت کر کے احمدپور شرقیہ تشریف لائے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ صوفی منش اور درویش صفت انسان تھے۔ غزنی کے بعض مشائخ رحمہم اللہ اجمعین نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو ایک چوغہ عنایت فرمایاتھا جس میں عجیب وغریب برکات اور شفائی خوبیاں تھیں۔ مشکلات کے حل اور قضائے حاجات میں اکسیر تھا۔ اس حوالہ سے جب اس بابرکت چوغےکی شہرت اردگرد پھیلی تو خلقت کا رجوع اتنا بڑھ گیا کہ سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ چنانچہ افراط وتفریظ کے باعث فتنہ کے خوف سے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے وہ چوغہ واپس غزنی(افغانستان) بھیج دیا۔ اس کی وجہ سے اس خاندان کی شہرت ’چوغہ زئی‘ یا بعض اوقات چوغہ والے کہلاتے تھے اور اس کے بعد ان کے خاندان کے بڑوں نے چونکہ اصل نسبت تھی اس کے بعد اپنے نام کے ساتھ چغتائی لکھنا شروع کیا۔
درویش پیر عبدالحق چغتائی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے کا نام درویش ولی محمد چغتائی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ عالم ہونے کےساتھ ساتھ سلسلہ قادریہ کے عظیم صاحبِ نسبت بزرگ بھی تھے۔ سماجی و فلاحی کاموں میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس حوالے سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی عوامی‘ فلاحی اور سماجی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کو ذکر کرنے کے لئے مستقل مضمون کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے خاندانی ذیلی نسبت ’’آلِ ولی‘‘ بھی لکھی جاتی ہے۔ تفصیلات کے لیے شیخ الوظائف کی کتاب ’’میراخاندانی پس منظر‘‘ عبقری مطبوعات کی چھپی ہوئی میں مزید تفصیلات آپ کو مل جائیں گی۔ مزیدایک تفصیلی کتاب جس میں خاندان کے تمام تعارف کو جو انگریزوں‘ ہندوؤں او رمسلمانوں کی کتب‘ اخبارات‘ رسائل اور جرائد میں چھپا وہ تمام جمع ہوکر ان شاء اللہ جلد منظرعام پر بہت ضخیم اور مستند جلد آرہی ہے۔
شیخ الوظائف کے آبائی سلسلہ کی مشہور شخصیت مفتی درویش فتح محمدچغتائی رحمۃ اللہ علیہ ہیں‘ جو اپنے وقت کے مایہ ناز عالم اورباکمال صوفی تھے۔ طبعاً سخی مزاج تھے‘ اس لئے اپنے والد درویش ولی محمدچغتائی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سماجی وفلاحی کاموں کا شغف رکھتے تھے۔ نیز غرباء مساکین اور معذور جانوروں کی خدمت کوبھی اپنے لیے سعادت سمجھتے۔ روحانی مراکز سے بہت گہرا تعلق رکھتے اور ان پر دل کھول کرخرچ کرتے تھے ۔اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ جب 1933ء میں ان کا وصال ہوا تو ان کی وفات پر پورے برصغیر خصوصاً بہاولپور کے ممتاز مذہبی تعلیمی اداروں اور خانقاہوں نے انکی خدمات کو سراہا اور تعزیتی شذرے و مضامین شائع کئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی نے بھی ان کی تعزیت کیلئے ایک تعزیتی سیمینار منعقد کیا اور اپنے رسالہ میں مضامین چھاپے کیونکہ وہ علی گڑھ یونیورسٹی کی بھی بہت خدمت کرتے اور سرسید احمدخان رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ایک ذاتی گہرا تعلق تھا۔
شیخ الوظائف کے دادا جناب درویش حاجی اللہ بخش چغتائی رحمۃ اللہ علیہ بہت صالح اور متقی آدمی تھے۔ زمینداری‘ تجارت اور روحانی فیض سے وابستہ تھے۔ قرآن پاک سے اتنا عشق تھا کہ روزانہ تین مرتبہ اس کی تلاوت فرماتے۔ حتیٰ کہ جب وصال کا وقت آیا تو اس وقت بھی قرآن پاک کی تلاوت کے بعد دعا مانگ رہے تھے کہ اسی حال میں وصال ہوگیا۔ شیخ الوظائف کے والد محترم کا نام حکیم محمد رمضان چغتائی رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت متقی انسان تھے۔ 1958ء میں کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی سائیکالوجی کی ڈگری حاصل کی۔ اس وقت پورے ملک میں صرف کراچی ہی میں اس مضمون میں ماسٹر تک تعلیم دی جاتی تھی اور تمام تعلیمی عملہ بھی غیر ملکی ہوتا تھا ۔ آپ کا زمینداری اورتجارت کے ساتھ طب و حکمت اور روحانیت سے بھی بہت گہرا تعلق تھا۔
ابتدائی تعلیم
شیخ الوظائف نے اپنی تعلیم کا آغاز احمد پور شرقیہ سے کیا اور گورنمنٹ ڈگری کالج احمد پور سےسیکنڈ ایئر کے بعد1988تا1991ءگورنمنٹ طبیہ کالج بہاولپور سے اعلیٰ پوزیشن میں طب و جراحت کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کو گولڈ میڈل دیا گیا۔
اعلیٰ تعلیم
علاوہ ازیں اس سے پہلے دورانِ تعلیم آپ اپنی بہترین تعلیمی قابلیت اور عمدہ اخلاق و کردار کے باعث سکالر شپ اور وظائف حاصل کرتے رہے ۔ آپ نے Method of Treatment کے عنوان پر 2400صفحات پر محیط ایک گراں قدرعلمی مقالہ تحریر کیا‘ جس پر آپ کو 1991ء میں سنچری ایوارڈ دیا گیا۔ مشہور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے علمی خدمات پر آپ کو 1999ء میں خواجہ غلام فریدؒ ایوارڈ ملا۔اسی طرح دیگر طبی و تحقیقی موضوعات پر خدمات کے عوض آپ کو متعدد اعزازات و ایوارڈز بھی نوازا گیا۔ بعد ازاں شیخ الوظائف نے ’’ہر بل ہیلتھ‘‘ کے عنوان پر تحقیقات کرکے امریکہ سے P.H.Dکی ڈگری حاصل کی ۔
روحانی فیض
برصغیر میں اسلام ،امن و آشتی اور روحانیت کا تمام تر سہرا حضرات صوفیائے کرام رحمہم اللہ اجمعین کے سر ہے۔ انہی صوفیائے کرام میں پانچویں صدی ہجری کے ایک مشہور بزرگ (جو نہ صرف ایک صوفی تھے‘ بلکہ صوفی ازم کے مجدد تھے )حضرت ابو الحسن سید نا علی بن عثمان الہجویری المعروف بہٖ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خاص آل میں سےآپ رحمۃ اللہ علیہ کے نسبی فرزند حضرت خواجہ سید محمد عبداللہ مجذوب ہجویری رحمۃ اللہ علیہ تھے‘ جن کے آباءواجداد ہجویر افغانستان سے ہجرت کر کے دہلی آکر بس گئے تھے۔ بعد ازاںحضرت خواجہ سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ لاہور تشریف لائے ۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک باکمال روحانی عامل ہونے کے ساتھ ساتھ بے مثال صوفی بھی تھے۔ شیخ الوظائف نے انہی باکمال شخصیت حضرت خواجہ صاحبؒ کی خدمت میں رہ کر تصوف (صوفی ازم) روحانیت اور دیگر مخفی و روحانی علوم میں کمال حاصل کیا۔چنانچہ ستمبر1991ءمیں حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ الوظائف نے تصوف کے چاروں سلسلوں یعنی قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی میں خلافت و اجازت اور اپنی جانشینی عطا فرمائی۔ مزید آپ کو شاذلی سلسلے کی خلافت بھی حاصل ہے۔اسی سال حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ عمرہ کیلئے حرمین شریفین روانہ ہوئے۔ بقضائے الٰہی مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں احاطہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں مدفن ہونےکی سعادت حاصل کی۔ بعد ازاں پاکستان‘ بھارت اور عرب کے بعض مشائخ نے بھی شیخ الوظائف کو خلافت و اجازت مرحمت فرمائی۔ چنانچہ عرب علاقوں میں مشہور سلسلہ ٔشاذلیہ کی خلافت بھی شیخ الوظائف کوعطا کی گئی جو ایک عظیم المرتبت صوفی بزرگ شیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچتاہے۔
خدمات
شیخ الوظائف کے شیخ و مرشدحضر ت خواجہ سید محمد عبداللہ ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں دکھی انسانیت کی خدمت کا بے پناہ جذبہ تھا۔ اپنے مرشد کریمؒ سے یہی خوبی شیخ الوظائف کو ملی۔ چنانچہ آپ 1984ء سے تا دمِ تحریر زندگی کے مختلف شعبوں میں رنگ ونسل، مذہب و ملت اورمسلک و گروہ کی تمام تفریقات سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ آپ کے مرکزی اور اہم عنوان طب، تصوف، روحانیت، امن بین المذاہب، غیر مسلموں سے حسن سلوک اور رواداری ہے۔ درج بالا امور میں ہر اعتبار سے (یعنی تصنیف و تالیف، تقریر و بیان، علمی، روحانی، جسمانی، مالی اور بدنی) آپ کی گراں قدر خدمات ہیں۔
تصنیف و تالیف
شیخ الوظائف اب تک مختلف موضوعات پرتقریباً 290 سے زائد کتب تالیف کر چکے ہیںاوریہ سلسلہ مزیدجاری ہے۔ یہ کتب صوفی ازم، روحانیت‘ عملیات‘ وظائف‘ تاریخ، تقسیم1947ء نفسیاتی مسائل، مرد وخواتین کے جنسی مسائل، جسمانی بیماریاں، ٹینشن، گھریلو الجھنیں، تربیتِ اولاد، جڑی بوٹیوں اور پھلوں کے فوائد، طبِ نبوی ؐ اور جدید سائنس ،سنتِ نبویؐ اور جدید سائنس، جادو ، جنات، جانوروں کی زندگی اور دیگر اہم مو ضوعات و مسائل پر مشتمل ہیں۔ ان تالیفات میں طبِ نبویﷺ اور جدید سائنس ایک ایسی کتاب ہے جس نے صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔ اکثر و بیشتر کتب کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے اور بہت سی کتب کئی یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل ہیں۔
عبقری میگزین کا اجراء
مذکورہ بالا موضوعات‘ جن پرشیخ الوظائف کی کتب مشتمل ہیں‘ دراصل دورِ حاضر کےاہم مسائل ہیں۔کتب کے علاوہ انہی تمام مسائل کا حل عام و خاص، زیادہ یا کم پڑھے لکھے، مسلم و غیر مسلم، ملکی و غیر ملکی سطح پر پہنچانے و پھیلانے کیلئے جون 2006ء میںشیخ الوظائف نے’’عبقری‘‘ کے نام سے ایک میگزین جاری کیا جس کے ایڈیٹر خود شیخ الوظائف ہی ہیں۔ عبقری میگزین میں روحانی، جسمانی، طبی، نفسیاتی، سماجی اور دیگر اہم موضوعات پر قابل قدر مضامین شائع ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عبقری کے قارئین اپنے تجربات و مشاہدات پر مبنی ایسی قیمتی باتیں اور روحانی و جسمانی و طبی نسخہ جات لکھ لکھ کر بھیجتے ہیں‘ جن کو وہ ہیرے جواہرات کی طرح حفاظت سے چھپا چھپا کر رکھتے تھے اور عبقری ان کو مسلسل شائع کرکے انسانیت کی وہ خدمت کر رہاہے‘ جو شائد کسی اور میگزین کے حصہ میں نہیں آئی۔
موجودہ دور کا اہم عالمی مسئلہ امن بین المذاہب اور مسلم و غیر مسلم کے مابین باہمی رواداری و حسن سلوک ہے ۔اس حوالے سے عبقری کی خدمات لازوال ہیں‘ عبقری اس اعتبار سے پاکستان کا واحد میگزین ہے‘ جس میں ہرماہ غیر مسلم طبقے سے رواداری کے عنوان پر مستقلاًایک مکمل کالم چھپتاہے۔ جس میں پیغمبر اسلام حضورسرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرامؓ، تابعین عظام‘ ائمہ دین اور سلف صالحین رحمہم اللہ اجمعین کے غیر مسلموں سے حسن سلوک ورواداری کا مکمل نقشہ پیش کیا جاتاہےکہ ان حضرات کاغیر مسلموں سےمعاملہ کیسا تھا۔ یہ کالم کتابی صورت میں مرتب ہو کراردو اور انگلش دونوں زبانوں میں شائع ہو چکا ہے۔ جس کا نام ہے ’’پیغمبر ِ اسلام ﷺ کا غیر مسلموں سے حسنِ سلوک‘‘۔ اس موضوع پر اب تک تین کتب اردو‘ انگلش زبان میں شائع ہوچکی ہیں۔
جن کے نام یہ ہیں: 1۔پیغمبر اسلام کا غیرمسلموں سے حسن سلوک۔ 2۔غیرمسلموں کی عبادات گاہیں اور ہماری ذمہ داریاں۔ 3۔امن اور عبقری۔ 4۔انسانیت اور رواداری۔
اپنی انہی اعلیٰ خوبیوں کی بناء پر انتہائی مختصر مدت میں’’ماہنامہ عبقری‘‘ ایک مقبول ترین اور عالمی میگزین بن گیا، جس سے پوری دنیا میں مختلف مذاہب، رنگ و نسل، مسلک و مشرب کے بلا شبہ لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ عبقری پاکستان کا واحد رسالہ جس کی اشاعت تمام مذہبی، سیاسی، سماجی، طبی، نفسیاتی اور روحانی رسائل سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس وقت (2020ء) تک عبقری رسالہ چھپنے کی تعداددن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اہم بات یہ
ہے کہ کوئی ایک رسالہ بھی اعزازی یا فری نہیں دیا جاتا۔ بلکہ اس کی ہر دلعزیز ی کے باعث لوگ اسے خرید کر پڑھتے ہیں‘ سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں اورخرید کر دوسروں کو محبت وہمدردی کے جذبات کے تحت گفٹ بھیجتے ہیں۔ سال کے اختتام پر مکمل سالانہ فائل کی خریداری اس کے علاوہ ہے۔ سالانہ فائل کی مانگ کو پورا کرنے کیلئے 2006ء سے لیکر اب تک کے تمام رسائل زیادہ تعداد میں بار بار چھاپ کر فائل تیار کی جاتی ہیں۔ اسی طرح پچھلے تمام رسائل افادۂ عام کیلئے اور بالکل مفت پڑھنے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے عبقری کی ویب سائٹ پر بھی موجو د ہیںبلکہ اردو دان طبقے کے علاوہ لوگوں کے استفادے کے لئے مکمل رسالہ کا انگلش ترجمہ بھی اَپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سندھی قارئین کے پرزور اصرار پر عبقری رسالہ ’’ماہنامہ گھریلو الجھنیں‘‘ کے نام سے سندھی زبان میں بھی جاری کیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ شیخ الوظائف کے طب، روحانیت اور صوفی ازم پر مضامین اور کالم مختلف ملکی و غیر ملکی رسائل، اخبارات و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں۔ جن سے کثیرالتعداد لوگ افادۂ عام حاصل کررہے ہیں۔
ماہنامہ عبقری آنلائن پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
بیانات و لیکچرز
شیخ الوظائف نے روحانیت، تصوف (صوفی ازم )امنِ عالم، باہمی رواداری و حسنِ اخلاق کی ترویج وترقی کیلئےایک عظیم روحانی مرکز یعنی ’’تسبیح خانہ مرکز روحانیت و امن‘‘ قائم کیا۔ قدرتی بات ہے کہ یہ مرکز ِ روحانیت و امن اور کرسچن کاادارہ نیشنل کونسل فار چرچزاِن پاکستان کے مرکزی دفتر کے متصل واقع ہے اور یہ محل و قوع بذاتِ خودایک بلندمقصدیعنی امن بین المذاہب کا ظاہری اور منہ بولتا ثبوت ہے۔
اس تسبیح خانہ مرکز روحانیت و امن میں شیخ الوظائف ہر ہفتہ (بروز جمعرات بعد از نماز مغرب)تصوف(صوفی ازم)روحانیت ؤ، امن ِعالم‘ صبرو درگذراور دورِ حاضر کےسلگتے مسائل کے حل کے موضوع پر درس دیتے ہیں‘ جس میں ہر مسلک و گروہ کے ہزاروں مرد و خواتین شریک ہوتے ہیں۔ درس میں شامل ہونے والے مجمع کے علاوہ یہی درس اس وقت پوری دنیاکے200 سے زائدممالک میں‘ جزائر سمیت آن لائن بھی سنا جاتاہے(یہ تعدادبھی مزید بڑھ رہی ہے) جس میں مختلف مذاہب کے لوگ شریک ہوتے ہیں، جو درس کو مکمل توجہ اور دھیان سےسنتے اوراس کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ درس اتنا پُرسوز، دل نشین، عمدہ اورہر آدمی کی ضرورت کے مطابق ہوتاہے کہ ایک مرتبہ سن لینے والا بار بار سننے کی تمنا رکھتاہے اور پھر ہر بار نہ صرف خود شریک ہوتاہے‘ بلکہ دیگر دوست واحباب کو بھی شرکت پر مجبورکرتاہے۔ اکثر لوگوں کا بیان ہے کہ ایک دفعہ کا سنا ہوا درس ہمیںاپنی غفلت بھری ترتیبِ زندگی بدلنے پر مجبور کردیتا ہے۔
درس میں شامل ہونے والےتمام شرکاء میموری کارڈز‘ موبائل‘ ایم پی تھری وغیرہ کے ذریعے اس درس کو مزید آگے شیئر کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان دروس کو ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے بے شمار لوگ سنتے ہیں۔ ان دروس کو سننے والے شرکاء کی زندگی میں ایمان ،اعمال، ذکر، روحانیت، مراقبہ، ذہنی سکون، گھریلو مسائل سے نجات، کاروباری مشکلات سے چھٹکارےاور اولاد کی تربیت کے حوالے سے ایک حیرت انگیز اور نمایاں تبدیلی ہر شخص محسوس کرتاہے حتیٰ کہ لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ہمیں آج معلوم ہواہے کہ اسلام میں حقیقی تصوف اور روحانیت کیا ہے۔
شیخ الوظائف کے ان دروس ، کتب اورمضامین کے اقتباسات اورعنوانات ‘فیس بک اور دیگر سوشل پیلٹ فارم ٹویٹر، ٹیلی گرام، انسٹاگرام، پن ٹرسٹ اور وٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بکثرت شیئر کیے جاتے ہیں جنہیں اندرون و بیرن ملک کےاخبارات و رسائل بھی نمایاں طور پر شائع کرتے ہیں۔
حلقہ کشف المحجوب
دنیا میں تصوف(صوفی ازم )و روحانیت پر ہزاروں کتب لکھی گئی ہیں‘ ان تمام کتب میں تقریباً ہزار سال قبل لکھی گئی زندہ وتابندہ کتاب کشف المحجوب ہے‘ جس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس کے مصنف مشہور ترین صوفی بزرگ ابوالحسن حضرت سید علی بن عثمان الہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ شیخ الوظائف کو یہ عظیم کتاب ان کے مرشد رحمۃ اللہ علیہ نے سبقاً سبقاً پڑھائی تھی۔ اپنے مرشد کریم کی اقتداء میں حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی فرزند شیخ الوظائف بھی ہر ماہ اس کتاب کو سبقاًسبقاً پڑھاتے ہیں ۔
مراقبہ
تصوف اور روحانیت مراقبہ کے بغیر نامکمل ہیں‘ اس لیے مرکز روحانیت و امن میں مراقبہ پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مراقبہ روحانیت کے علاوہ عالمی‘ نفسیاتی ، جسمانی مسائل اور ذہنی الجھنوں کا آخری اور کامیاب حل ہے۔ چنانچہ مرکز روحانیت و امن تسبیح خانہ میں حلقہ کشف المحجوب کے بعدمراقبہ کروایا جاتاہے اور اس کے بعد دعا ہوتی ہے۔ اس دعا میں تمام مسلمانوں اور دیگر تمام اہل مذاہب( عیسائی، یہودی، سکھ ،ہندو،بدھ مت وغیرہ) تمام کیلئے ایمان ،ہدایت، دل کے سکون، معاشرہ کے امن و آشتی، تمام مسائل، گھریلو الجھنوں اور آخرت کی راحت و کامیابی کی خصوصی مِنّت کی جاتی ہے۔
مختلف اسفار
شیخ الوظائف پاکستان وبیرون ملک سفر کرتے ہیں اور دوران سفر بھی لیکچرز کا سلسلہ جاری رہتاہے اور یوں مختلف علاقوں کے لوگ بھی تصوف (صوفی ازم)روحانیت اور شیخ الوظائف کے اب تک بے شمار دروس ہوچکے ہیں اور نہ رکنے والا یہ بابرکت سلسلہ سفر وحضر میں جاری و ساری ہے۔ ان شاء اللہ۔ شیخ الوظائف کے دروس عبقری کی ویب سائٹ پر موجود ہیں جن کو سنا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتاہے۔ اسی طرح میموری کارڈ میں بھی درس موجود ہیں جو عبقری دواخانہ اور دفتر سے مل سکتےہیں۔الجھےہوئے، پیچیدہ قسم کےروحانی و جسمانی مسائل کے حل پرشیخ الوظائف کے قیمتی دروس سے مستفید ہوتے ہیں۔
عبقری خدمات
دکھی انسانیت کی خدمت کے جذبہ سے سرشارشیخ الوظائف نے 2010ء سےعبقری خدمات کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ سلسلہ مذہب، مسلک، رنگ و نسل ہر قسم کی تفریقات اور اختلافات سے ہٹ کر سب کی خدمت کر رہاہے اور مسائل کا حل لوگوں کو ان کی دہلیز تک پہنچانے کی سعی کر رہاہے۔ زلزلہ زدگان ، سیلاب زدگان میں عبقری کی شاندار خدمات ہیں۔
عبقری طبی خدمات
مفادِ عامہ کے پیش نظر، تمام لوگوں کی خدمت کیلئے عبقری دوا خانہ قائم کیا گیا ہے۔ عبقری دوا خانہ بھی ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کے کام آرہاہے۔ یہاں آنے والا چاہے کسی جسمانی مسئلہ کا شکار ہویا روحانی مسائل میں الجھا ہوا، مرد ہو یا عورت، مسلم ہو یا غیر مسلم‘ سب کی بغیر کسی مشورہ فیس کے مکمل طبی و روحانی رہنمائی کی جاتی ہے۔
گھر بیٹھے عبقری دواخانہ کی ادویات خریدنے کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
مذکورہ بالا تحریر ایک جھلک ہے اُس سفرِروحانیت و امن اور صوفی ازم کی‘ جوشیخ الوظائف کی رہنمائی میں لاکھوں لوگ طے کر رہے ہیں۔ اس قافلۂ امن کا ہر فرد اپنے اپنے مستقرو مقام پر رہتے ہوئے خدمتِ خلق کے اعلیٰ جذبہ سے سرشار ہے اور تصوف، روحانیت اور امنِ عالم کا داعی بنا ہواہے۔الحمد للہ رب العالمین۔